غزل
یہ زندگی مجھے تسلیم کیوں نہیں کرتی
مرے شعور کی تنظیم کیوں نہیں کرتی
یہ کوئی چیز جو میرے خلاف ہے مجھ میں
مرے وجود کو تقسیم کیوں نہیں کرتی
اسے پسند نہیں ہیں مرے سوال تو پھر
کسی سوال میں ترمیم کیوں نہیں کرتی
ہمارے خواب امر ہیں تو پھر کوئی تعبیر
ہمارے خوابوں کی تفہیم کیوں نہیں کرتی
یہ وہ بدن دمِ شمشیر کیوں نہیں ہوتا
سپردگی مجھے دو نیم کیوں نہیں کرتی
ہے میرا خون ہی اولاد میں مری تو پھر
وہ مجھ ضعیف کی تعظیم کیوں نہیں کرتی
میں دنیا دار بلا کا ہوں پر مری دنیا
تعلقات کو تسلیم کیوں نہیں کرتی
میں جنگ جیتنے والوں میں کیوں نہیں ہوتا
شکست مائلِ تقدیم کیوں نہیں ہوتی
وہ پھاڑ پھاڑ کے سیتی تو ہے قبا محسن
کوئی ہنر مجھے تعلیم کیوں نہیں کرتی
محسن اسرار