یہ زینب نام کا جو واقعہ ہے
اسی میں گویا اک محشر بپا ہے
مجھے اک عمر تو شکوہ رہا ہے
مگر اب تو سکوں سا آ گیا ہے
تمہیں تہذیب لانے کی پڑی ہے
مگر ،بھوکے کا، روٹی مسئلہ ہے
بھلا بیٹھے ہیں ہم آ کر جہاں میں
ہمیں کس واسطے بھیجا گیا ہے
محبّت اور ہَوس ہم شکل ہیں اب
سو اب پہچاننے کا مسئلہ ہے
یہ جو اک نام ہے نامِ محبّت
یہ میرے دل کو جیسے چیرتا ہے
جہاں بھی آبلے پیروں کے چیخے
میں یہ سمجھی مرا گھر آ گیا ہے
کتابوں میں پڑھا ہے جو بھی میں نے
یہ دنیا تو بہت اس سے جدا ہے
نہ جانے کیوں کسی کی بے بسی پر
مِرے اندر بھی کوئی چیختا ہے
محبت ہی محبت بس محبت
یہ ہر انسان کا ہی مسئلہ ہے
کمی کر دے سزا میں اب تو یارب
لہو اب ایڑیوں تک آ گیا ہے
ثبین سیف