loader image

MOJ E SUKHAN

اردو شعراء

20/04/2025 08:34

یہ سارے پھول یہ پتھر اسی سے ملتے ہیں

یہ سارے پھول یہ پتھر اسی سے ملتے ہیں
تو اے عزیز ہم اکثر اسی سے ملتے ہیں

خدا گواہ کہ ان میں وہی ہلاکت ہے
یہ تیغ و تیر یہ خنجر اسی سے ملتے ہیں

وہ ایک بار نہیں ہے ہزار بار ہے وہ
سو ہم اسی سے بچھڑ کر اسی سے ملتے ہیں

بچھا ہوا ہے وہ گویا بساط کی صورت
یہ سب سفید و سیہ گھر اسی سے ملتے ہیں

یہ دھوپ چھاؤں یہ آب رواں یہ ابر یہ پھول
یہ آسماں یہ کبوتر اسی سے ملتے ہیں

یہ خاص ساز ازل سے وہ دجلۂ آہنگ
یہ نیل و زمزم و کوثر اسی سے ملتے ہیں

یہ موتیا یہ چنبیلی یہ موگرا یہ گلاب
یہ سارے گہنے یہ زیور اسی سے ملتے ہیں

عقیق گوہر و الماس نیلم و یاقوت
یہ سب نگینے یہ کنکر اسی سے ملتے ہیں

اکبر معصوم

Email
Facebook
WhatsApp

مزید شاعری

رباعیات

غزلیات

نظم