یہ شہر شہرِ رفیقاں ہے اور کیا کہیے
متاعِ دردِ میسر ہے مرحبا کہیے
لہو لہو ہے چمن تات تار پیراہن
جنوں کا پھر بھی تقاضا ہے مدعا کہیے
جو لفظ میں نے سنا آپ سے وہ نفرت تھا
جو لفظ میں نے کہا آپ سے سنا کہیے
ہر ایک چہرے پہ لکھی ہے ایک سی تحریر
کسے سمجھیے خدا کس کو نا خدا کہیے
وفا خطا تھی جو ہم سے تمام عمر ہوئی
ہوئی ہو آپ سے ایسی کوئی خطا کہیے
جو ہو سکے تو سمجھیے ہر ایک کو اپنا
جو بن پڑے تو کسی کو نا آشنا کہیے
محمود صدیقی