یہ شیشہ سچ پہ آمادہ نہیں ہے
جو دکھتا ہے مرا چہرہ نہیں ہے
یہ راہِ عشق ہے چلنا سنبھل کے
یہاں سیدھا کوئی رستہ نہیں ہے
بساطِ عشق پر کیا چال چلتا
کہ خالی کوئی بھی خانہ نہیں ہے
یہ صحرا میں سرابوں کا سفر ہے
نظر آتا ہے جو دریا نیہں ہے
یہ کیسی شام اتری ہے نگر میں
کہ روشن ایک بھی چہرہ نہیں ہے
یہاں بس مصلحت ہی مصلحت ہے
کسی کا کوئی دلدادہ نہیں ہے
گذرتا وقت تو گذرے گا ثاقب
جو ٹہرے یہ وہ سرمایہ نہیں ہے
سہیل ثاقب