loader image

MOJ E SUKHAN

اردو شعراء

17/06/2025 17:30

یہ مت سمجھنا کہ میں مسافت سے ہار بیٹھا

یہ مت سمجھنا کہ میں مسافت سے ہار بیٹھا
نکالنے کو میں اپنے پاؤں سے خار بیٹھا

مرا کسی سے مقابلہ تو نہیں تھا لیکن
نقاب چہرے سے میں عدو کے اتار بیٹھا

کسی کے لہجے کی دلکشی کو کشید کرکے
اداس رُت کی سماعتوں کو نکھار بیٹھا

میں دورِ ماضی کی تلخیوں کو بھلا چکا ہوں
گزارنی تھی جو تلخ و شیریں گزار بیٹھا

میں اس کے رستے سے سنگریزے ہٹا رہا ہوں
اُدھر وہ دیتا ہے اپنے خنجر کو دھار بیٹھا

وفا کا میری اسے ابھی تک یقیں نہیں ہے
وہ کر رہا ہے شکایتوں کو شمار بیٹھا

وہ ایک صحرا کہ جس کی پانی طلب رہی ہے
مگر میں دریا سمندروں میں اتار بیٹھا

بہت چھپایا تھا رازِ دل کو سبھی سے اس نے
جنوں کی منزل پہ وہ ضیاء کو پکار بیٹھا

ضیاء زیدی

Email
Facebook
WhatsApp

مزید شاعری

رباعیات

غزلیات
نظم