Yeh Nibtaat kay Dukh hain na Hayataat kay dukh
غزل
یہ نباتات کے دکھ ہیں نہ حیاتات کے دکھ
میری غزلوں میں سسکتے ہیں مری ذات کے دکھ
بھولنا چاہوں تو میں بھول نہیں پاتا انہیں
دل میں پیوست ہیں بٹتی ہوئی خیرات کے دکھ
دل جلائیں گے مری قبر کے بن بن کے گلاب
درِ امید پہ دم دیتے خیالات کے دکھ
آج بازارِ عقیدت میں رکھے ہیں میں نے
ہائے محسوس کیے جو بھی سماوات کے دکھ
آئینے میں بھی چلے آتے ہیں میری صورت
گھر کے آنگن میں بچھی اپنوں کی اس گھات کے دکھ
ناک نقشہ ہی بدل دیتے ہیں یہ جانتا ہوں
ایسے ہوتے ہیں درِ عشق کی سوغات کے دکھ
ہائے ترکے میں ملے ہیں تو ملے ہیں مجھ کو
خونی رشتوں کے سوالات جوابات کے دکھ
جامِ جم ہوکے چلے آئے ہیں غم حجرے میں
خود سے جو کھائی کسی بات پہ اس مات کے دکھ
عین ممکن ہے کہ ہو جائیں مرا ذادِ سفر
حجرہِ زیست کے یہ آخری لمحات کے دکھ
اک طرف موجِ نسیمی ہے سرِ بزمِ حیات
اک طرف مجھ کو فنا کرتے کسی بات کے دکھ
نسیم شیخ
Naseem Shaikh