یہ نہ تھی ہماری قسمت کہ وصول ادھارہوتا
"اگر اور جیتے رہتے یہی انتظار ہوتا "
تری ویزالاٹری کویہ سمجھ کے جھوٹ جانا
"کہ خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا”
یہ کہاں کا امتحاں ہے سبھی ممتحن ہیں ناصح
"کوئی چارہ ساز ہوتا کوئی غم گسار ہوتا”
جواچھل کے ایک دم ہم ترے گیٹ پر چڑھتے
یہ تراشکاری کتاہمیں پر سوار ہو تا
کہامیں نے میں ہوں ٹیچر تو نکاح مجھ سے کرلے
کیااس نےکرہی لیتی جوتوتھانے دار ہوتا
جو ہماری ڈیڈباڈی کہیں چیل کوے کھاتے
"نہ کبھی جنازہ اٹھتا نہ کہیں مزار ہوتا”
جونہ لاتاتوکولمبس یہ نشےکا ایک پودا
تونہ کوئی بیٹی پیرانہ کہیں سگارہوتا
غم عشق ہی بھلا ہے کہ بلاکاہوں نکھٹو
"غم عشق اگرنہ ہوتاغم روزگار ہوتا "
ترانازتیراعاصی بڑے شوق سے اٹھاتا
جویہ ہرمہینےجاناں فقط ایک بار ہوتا
مرزا عاصی اختر