یہ چاندنی گر یقین بن کر
محبتوں کے حسین موسم
اتار لاۓ تو رات ڈھل کر
نیا سویرا نئی بہاریں سنوار لائے
یوں شہر ِ دل کے اداس موسم ،
اداس رنگوں کی رائگانی
سمیٹ کر پھر ہوا کے ہاتھوں
نیا کوئی اک پیام لائے۔
کسی سنہری کرن کے ہاتھوں
نئی امیدیں اجالتے ہی
سمندروں کے نئے سفر کی
پکار آۓ کہیں بکھرتی سی نرم خوشبو
بکھر کے تھوڑا قرار لائے
یہ چاندنی گر سکوتِ شب سے
جو بے یقینی جدا کرے تب
ہمیں بھی یہ اعتبار آئے
کہ ہجر موسم کی ساری راتیں
گزار آئے جو شہر ِ دل میں
سما گیا تھا وہ ہجر موسم
گزار آئے۔ گزار آئے
ڈاکٹر حنا امبریں طارق