یہ کائنات ِ روح و بدن چھانتے ہوئے
میں تھک گیا ہوں تجھ کوخدا مانتے ہوئے
اک دو گھڑی کا تیرا تعلق کہے مجھے
صدیاں گزر گئی ہیں تجھے جانتے ہوئے
پھرتا ہوں لے کے آنکھ میں ذرے کی وسعتیں
صحرا سمٹ گئے ہیں مجھے چھانتے ہوئے
برکھا کے شامیانے سے باہر ندی کے پاس
اچھا لگا ہے دھوپ مجھے تانتے ہوئے
یہ بھول ہی گیا کوئی میرا بھی نام تھا
ہر وقت نام یار کا گردانتے ہوئے
اس کے کمال ِ ضبط کی منصور خیر ہو
صرف ِ نظر کیا مجھے پہچانتے ہوئے
منصور آفاق