غزل
یہ کس نے عہد فراموش سے صدا دی ہے
ابھی چراغ جلائے ہی تھے ہوا دی ہے
یہ ورثہ ہم سے نئی نسل کو کبھی نہ ملے
زباں ہمارے بزرگوں نے بے نوا دی ہے
خراج آرزوئے موسم بہار ہے یہ
لہو لہو جو مرے پیرہن کی وادی ہے
کوئی بھی گھر سے نہ نکلے چراغ دل لے کر
امیر شہر کی یہ شہر میں منادی ہے
ملی ہے یہ مہ و انجم سے دوستی کی سزا
کہ آفتاب نے بینائی تک جلا دی ہے
کہاں سے کاٹو گے کل تم مسرتیں عابدؔ
یہ فصل اشک جو ہر آنکھ میں اگا دی ہے
عابد جعفری