غزل
یہ کس ڈر سے نکالا جا رہا ہے
مجھے گھر سے نکالا جا رہا ہے
جو منظر کو نمایاں کر رہا تھا
وہ منظر سے نکالا جا رہا ہے
اسے دیوار سے لایا گیا ہے
مجھے در سے نکالا جا رہا ہے
چبھا تھا جو مرے پاؤں میں کانٹا
مرے سر سے نکالا جا رہا ہے
سنا ہے پھر کسی دریا کا ملبہ
سمندر سے نکالا جا رہا ہے
نصیر بلچ