غزل
یہ کچھ بدلاؤ سا اچھا لگا ہے
ہمیں اک دوسرا اچھا لگا ہے
سمجھنا ہے اسے نزدیک جا کر
جسے مجھ سا برا اچھا لگا ہے
یہ کیا ہر وقت جینے کی دعائیں
یہاں ایسا بھی کیا اچھا لگا ہے
سفر تو زندگی بھر کا ہے لیکن
یہ وقفہ سا ذرا اچھا لگا ہے
مری نظریں بھی ہیں اب آسماں پر
کوئی محو دعا اچھا لگا ہے
ہوئے برباد جس کے عشق میں ہم
وہ اب جا کر ذرا اچھا لگا ہے
وہ سورج جو مرا دشمن تھا دن بھر
مجھے ڈھلتا ہوا اچھا لگا ہے
کوئی پوچھے تو کیا بتلائیں گے ہم
کہ اس منظر میں کیا اچھا لگا ہے
شارق کیفی