یہ کیوں کہوں کہ لگی آگ آشیانے کو
کیا ہے برق نے روشن سیاہ خانے کو
شراب نغمہ جوانی گھٹائیں موسم گل
صدائیں وہ مرے گزرے ہوئے زمانے کو
بھرے چمن میں بس اک اس وقف ماتم ہے
سمجھ رہی ہے جو کلیوں کے مسکرانے کو
یہ روز روز کی مشق سجود ختم تو ہو
جبیں میں جذب ہی کر لوں نہ آستانہ کو
قفس میں بھی نہ کہیں بجلیوں کی یورش ہو
بنا رہا ہوں تصور میں آشیانے کو
یہ بے خودی ہے تری مست انکھڑیوں کی قسم
کہ رند بھول گئے ہیں شراب خانے کو
گزر رہی ہے کچھ اس ڈھب سے زندگی ماہرؔ
کہ جیسے میری ضرورت نہیں زمانے کو
ماہر القادری