غزل
یہ ہے جینے کا مزہ رہنے دو
درد کا پیڑ ہرا رہنے دو
حبس اتنا ہے گھٹا جاتا ہے دم
اک دریچہ تو کھلا رہنے دو
آس کا جگنو چمکتا رکھو
دل کے داغوں کو ہرا رہنے دو
روشنی کی ہے ضرورت سب کو
اک روزن تو کھلا رہنے دو
اک دیا اور نہ بجھ جائے کہیں
اج ہے تیز ہوا رہنے دو
اپنی انکھوں سے نہ پونچھو انسو
ان ستاروں کو سجا رہنے دو
سر منزل بھی ہے منزل کی تلاش
رستہ کانٹوں سے بھرا رہنے دو
رائیگاں عمر ہوئی ہے روبی
کون ہوتا ہے فنا رہنے دو
روبینہ راجپوت