۔۔۔۔۔۔جلوےسے حیرت تک کی ترنگ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔ملک عرفان خانی

موج سخن کراچی سے شائع ہونے والا تازہ شعری مجموعہ "ترنگ ” محترمہ نسرین سید کینڈا کا مجموعی طور پر چھٹے مجموعے کا دوسرا ایڈیشن ہے جسکا ٹائٹل بائنڈنگ اور ورق بہترین اشاعتی ادارہ کی خوبصورت کاوش ہے اور شاعرہ کا تخیل شعری کیفیات کا آئینہ دار ہے ۔سخن شناسی اور سخن سازی کا تعلق ظاہر و باطن سے جڑا ہے اگر ہم سخن شناسی کو ہٹا دیں تو سخن , سخن سازی میں ظاہر ہو گا باطن نہیں ہو گا اگر ہم سخن شناسی اور سخن سازی دونوں کے مشاہدے اور تجربات سے گذریں گے تو یقینا سخن سازی میں ظاہر اور باطن نمایاں ہوگا
نسیرین سید کا تازہ شعری مجموعہ ” ترنگ ” اس بات کی گواہی دے رہا ہے کہ نسرین سید نے پہلے سخن شناسی کو اپنا ورد بنایا یعنی روائتی شاعری کا خوب سے خوب مطالعہ کیا اور زبان کے اعتبار کو سمجھا پھر جا کر کہیں سخن سازی کے باطن کو ظاہر میں لایا
جس عمیق نگاہی سے نسرین سید نے اردو زبان کا مطالعہ کیا ہے وہ یقینا اس مجموعہ میں بخوبی دیکھا جا سکتا ہے مثال کے طور پر اس مجموعہ میں فارسی ہندی, عربی, سنسکرت کے ایسے الفاظ جو اردو زبان کے اعتبار کو سخن کی چاشنی میں ڈھالتے ہیں شاعرہ کے مطالعہ کی گواہی دیتے ہوۓ شعر کی شان بڑھاتے ملتے ہیں ایسے الفاظ آج کل شاعری میں نہیں ملتے اس کی وجہ لوگ مطالعہ نہیں کرتے جس کی وجہ سے نجی سطح کی زبان کا شعر میں استعمال عام ہے جو کہ اردو زبان کے ساتھ نا انصافی ہے
نسرین سید کا تازہ مجموعہ دور حاضر میں سخن و زبان کے اعتبار سے بہترین مجموعہ ہے ۔
کچھ الفاظ مثال کے طور پر یہاں تحریر کر رہا ہوں جو کہ زبان کے اعتبار سے شعر کے لۓ موزوں الفاظ ہیں اور ایسے الفاظ ہی در اصل شعر کے مفہوم, و معانی کو جاننے کے لۓ ظاہر سے باطن میں جھانکنے کا تقاضا کرتے جب اپ شعر کے باطن سے خیال کی گہرائی جانتے ہیں تو بے ساختہ واہ وااہ کئے بغیر نہیں رہ سکتے میں سمجھتا ہو ں
” ترنگ "کی شاعرہ نے خیال کو کمال مہارت کے ساتھ تخلیقی قوت کو بروۓ کار لاتے ہوۓ پر اثر شعر میں ڈھالا ہے ۔
بے شمار الفاظ جن سے شعر کا حسن ” ترنگ ” میں آیا ان میں چند درج زیل ہیں
آہ تپاں, لہو لہان, مہر سکوت, وارفتہ, شہر آشوب, متاع ناز, نیساں, تجنا, عصیاں, پہناں, رنجور, زدگان وغیرہ
اس طرح الفاظ کا استعمال کر کے شاعرہ نے اردو زبان کا حق ادا کر دیا گو یہ الفاظ مختلف زبانوں کے ہیں لیکن اردو زبان میں یہ مستعمل ہیں اگر ایسے الفاظ اردو زبان میں مستعمل نہ ہوتے تو غالب , میر, علامہ اقبال کی شاعری بھی ہمارے تعلیمی سلیبس سے متروک ہو جاتی ایسے الفاظ شاعری کا حسن دوبالا کرتے ہیں ۔
نسرین سید اک مسلسل لکھاری ہے ترنگ انکا چھٹہ ادبی سفر ہے
اس چھٹےسفر میں اسلوب کا خاص دھیان رکھا گیا ہے اور پختگی زبان اور خیال کی آئینہ دار ہے سلاست کو بھی بخوبی نبھایا ہے ۔نسرین سید کا تعلق فیصل آباد سے جو ادبی حوالہ سے ادب میں نمایاں مقام رکھتا ہے کافی عرصہ سے کینڈا میں مقیم ہیں اس کے باوجود ان کے ان اشعار سے پاکستان اور پاکستانی عوام کے مسائل , بخوبی ملتے ہیں ۔ جو کہ اپنے وطن اور اس میں بسنے والوں کی محبت کا ثبوت ہیں
شعری مجموعہ” ترنگ ” حمد , نعت , سلام کے ساتھ ساتھ نظم اور غزل پر مشتمل ہے اس مجموعہ پر اہم عالمی ادبی شخصیات کی راۓ سے ظاہر ہوتا ہے کہ نسائی ادب میں نسرین سید کا منفرد مقام ہے ۔
نسرین سید کے ہاں عشق و محبت کے موضوعات کے ساتھ ساتھ ہجر , فراق , اور انسانئیت سے محبت کے فروغ کے بھی موضوعات ملتے ہیں۔ نسرین سید نے مجموعہ "ترنگ ” میں تخیل کو روائتی الفاظ سے نۓ انداز میں خیال کا پیکر سجایا ہے جو کہ نسائی ادب میں خال خال ہی ملتا ہے،شعری مجموعہ ” ترنگ ” مطالعہ کرتے وقت قاری کو یہ کہنے پر مجبور کرتا ہے کہ سخنی خیالات کے جلوے سے لے کر حیرت کی "ترنگ” کا سفر کامیاب ترین ہے
محترمہ نسرین سید کو عمدہ کتاب کی اشاعت پر مبارک باد پیش کرتا ہوں
ترنگ سے چند اشعار اپکے زوق کے لۓ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہی مالک ہے وہی سب کا خدا ہے
سو اس کے نام ہی سے ابتدا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کمبل تھا اک چٹائی تھی تکیہ تھا چھال کا
شاہِ جہاں تھے یہ تھا بچھونا رسولﷺ کا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جو رنج ہے دل میں وہ رقم ہو بھی تو کیسے
شبیرٗ کے غم سا کوئی غم ہو بھی تو کیسے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ٹھکانہ مل گیا ہے اس کو شائد
مرے سینے سے دل کی رخصتی ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کوئی بگولہ ہے کیا میری زات میں مضمر
یہ رقص کرتا ہوا خاک سے اٹھا کیا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تو نے دیکھی ہےابھی لب پہ مرے مہرِ سکوت
تو نے دیکھا ہی کہاں جب مری جاں بولتی ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مجھے ملا مرا مسجود ایک عمر کے بعد
سو دل کے عرش پہ اس کو نہ کیوں بٹھا رکھتی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نسرہن ملا جب سے وہ اک لمس ِ ملائم
بھاتا ہی نہیں اطلس و کمخواب کو چھونا
۔۔۔۔۔۔
جسکا ہر در کسی جنت کی طرف کھلتا ہے
ہم نے بھی عشق میں وہ بارہ دری دیکھی ہے
۔۔۔۔۔۔۔
مظلوم کے لبوں پہ جو یہ احتجاج ہے
طوفان کی آرہی ہے صدا غور سے سنو
۔۔۔۔۔۔۔
ملک عرفان خانی