loader image

MOJ E SUKHAN

17/06/2025 23:58

راحت کا شعری مجموعہ "پیش رفت” تحریر شاہ روم خان ولی

راحت سرحدی کا شعری مجموعہ "پیش رفت”
اچھی شاعری ذہن و نفس انسانی کی آبیاری کا وسیلہ ہے تاکہ یہ زندگی ہم سب کے لئے خوبصورت بامعنی اور امن و سکون کا گہوارہ بن سکے۔ شعر و ادب نسل انسانی کی مشترکہ میراث ہے کیونکہ اسی آئینے میں عہد بہ عہد آدمی کے خواب تعبیر کی شکل اختیار کرتے رہتے ہیں۔
بچ گئے تھے دھوپ سے جو سائے واپس کردیے
اپنی ساری عمر کے سرمائے واپس کردیے
ہم کھلونے لے تو سکتے تھے مگر یہ سوچ کر
جانے کب ان سے بھی جی بھر جائے واپس کر دیے
"پیش رفت” ایسا مجموعہ ہے جو خود شاعر کی قد کاٹ کا وسیلہ بنتا ہے. جو لوگ راحت سرحدی اور ان کی شاعری سے آشنا ہیں وہ جانتے ہیں کہ راحت کتنے اچھے شاعر ہیں تاہم جن صاحبِ ذوق لوگوں تک راحت کی شاعری کی رسائی پہلے نہیں ہوئی تھی اس مجموعے کی بدولت ان کی شاعری کے تعارف کا دائرہ و حلقہ وسیع تر ہوگا۔ اور اس مجموعے کی شاعرانہ خوشبو بلاتعین شعری فضا کو معطر کرتی رہے گی۔
لازم ہے مگر اندھوں کی تصدیق بھی راحت
مانا کہ تری بہروں میں شنوائی بہت ہے
کبھی کبھی کوئی ایسی کتاب بھی بازار میں آجاتی ہے جسے اپنے زمانے کی کتاب تسلیم کرنا مشکل معلوم ہوتا ہے، کیونکہ آج کے شعر سے زیادہ مستقبل کا پتہ دیتی ہوئی معلوم ہوتی ہے اور ساتھ ہی ساتھ کسی دور دراز گزشتہ منزل کی بھی آوازیں اس کے لہجے میں صاف سنائی دیتی ہے۔
آئیے اس مہذب اور شائستہ لہجے کی شاعری کا استقبال کریں جس میں ہم سب کی آواز بھی شامل ہے۔
نمونۂ اشعار
۔۔۔۔۔۔۔
اتنی تو کبھی چھت پہ نہیں برسی کہ جتنی
بنیاد میں گرتی رہی برسات ہماری
۔۔۔۔۔
اگر یہ مٹھی کسی دن کھلی تو یاد رہے
تہی ملے گی کفِ کائنات اندر سے
۔۔۔۔
کچھ نہیں ہے تو ذرا دیر سہارے کےلئے
گرتی دیوار پہ اک ہاتھ بنا دیتے ہیں
۔۔۔۔۔۔
کھینچ کر اک خطِ تنسیخ جہانِ رد پر
تم کہو تو نئے دن رات بنا دیتے ہیں
۔۔۔۔۔۔۔
ڈور ساری الجھ گئی راحت
اک گرہ کھولنے کے چکر میں
۔۔۔۔۔
سب لوگ ملے ہاتھوں میں تانے ہوئے سورج
کیا سوچ کے لم سایہء دیوار سے نکلے
۔۔۔۔۔۔
میں اپنی چشم تصور سے دیکھ سکتا تھا
نظر سے جسم پہ اس کے نشان پڑتے ہوئے
۔۔۔۔۔
یقین کر کہ کبھی جنگلوں سے چھپتی نہیں
چٹختے پتوں میں سانپوں کی سرسراہٹ تک
۔۔۔۔۔۔۔
تمام عمر یہ آنکھیں لہو لہو کرکے
کرن سے لایا ہوں سائے کو میں رفو کرکے
۔۔۔۔۔۔
ہوائے شہر میں اتنی کدورتیں ہیں کہ اب
دکھائی دیتا ہے اشجار بھی لڑے ہوئے ہیں
۔۔۔۔۔۔
ہوتی ہے ایک یہ بھی علامت عذاب کی
چپ سادھ لیں پرندے اگر بولتے ہوئے
۔۔۔۔۔
نمونۂ غزلیات
مکمل آج تک کس پر کھلا ہے
کہاں تک گنبدِ بے در کھلا ہے
کسی نے خواب سے کھولی ہیں آنکھیں
کہ بستر پر درِ منظر کھلا ہے
یہاں سے واپسی ممکن نہیں اب
کہاں وہ بے وفا آ کر کھلا ہے
شکاری ہی اناڑی ہے وگرنہ
مرا تو حال بال و پر کھلا ہے
سفینہ ڈوبنے کو ہے ہمارا
اچانک یہ سمندر پر کھلا ہے
ہے دنیا کانچ کا الٹا کٹورا
جو اندر تنگ اور باہر کھلا ہے
گلی میں دیکھ کر لگتا ہے راحت
دریچہ قبر کے اندر کھلا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔
سبھی کے حصے میں حسبِ رواج بت کر بھی
شجر تو پھوٹ پڑا بار بار کٹ کر بھی
کوئی کھنکتا ستارہ گرا نہ کاسے میں
کہ میں نے دیکھ لیا آسماں اُلٹ کر بھی
نصیب ہونی ہے پھر بھی کہاں تجھے منزل
میں بیٹھ جاؤں اگر راستے سے ہٹ کر بھی
تو پھر سمجھ لو کہ دکھ ساتھ لے گیا آنکھیں
دکھائی کچھ نہ اگر دے غبار چھٹ کر بھی
صدائیں دیتے ہوئے لوگ ہوگئے پتھر
مسافروں نے تو دیکھا نہیں پلٹ کر بھی
ہے کائنات کسی گیند کی طرح بے حس
تو دیکھ لے اسے چاہے الٹ پُلٹ کر بھی
نہ جانے ضبط کی حد کون سی ہے یہ راحت
کہ جان دینے پہ راضی ہیں لوگ پھٹ کر بھی
دعا گو
شاہ روم خان ولی
Facebook
Twitter
WhatsApp

ادب سے متعلق نئے مضامین