غزل
استاد نصرت فتح علی خان نے اس غزل کو سر ساز کی مالا میں سجا کر اپنی آواز سے معطر کر دیا
ہے کہاں کا ارادہ تمہارا صنم کس کے دل کو اداؤں سے بہلاؤ گے
سچ بتاؤ کہ اس چاندنی رات میں کس سے وعدہ کیا ہے کہاں جاؤ گے
دیکھو اچھا نہیں یہ تمہارا چلن یہ جوانی کے دن اور یہ شوخیاں
یوں نہ آیا کرو بال کھولے ہوئے ورنہ دنیا میں بدنام ہو جاؤ گے
آج جاؤ نہ بے چین کر کے مجھے جان جاں دل دکھانا بری بات ہے
ہم تڑپتے رہیں گے یہاں رات بھر تم تو آرام کی نیند سو جاؤ گے
پاس آؤ تو تم کو لگائیں گلے مسکراتے ہو کیوں دور سے دیکھ کر
یوں ہی گزرے اگر یہ جوانی کے دن ہم بھی پچھتائیں گے تم بھی پچھتاؤ گے
بے وفا بے مروت ہے ان کی نظر یہ بدل جائیں گے زندگی لوٹ کر
حسن والوں سے دل کو لگایا اگر اے فناؔ دیکھو بے موت مر جاؤ گے
فنا بلند شہری