غزل
روح کو راحت ہوئی غم دور سارا ہو گیا
کون میرے دل میں یا رب جلوہ آرا ہو گیا
جب جدا مجھ سے وہ میرا ماہ پارہ ہو گیا
روشنی جاتی رہی اندھیر سارا ہو گیا
رسم و رہ ایسی بڑھاؤ جس سے سب آگاہ ہوں
تم ہمارے ہو گئے اور میں تمہارا ہو گیا
میں جو کہتا تھا کہ مجھ سے ضبط ہو سکتا نہیں
راز فاش آخر تمہارا اور ہمارا ہو گیا
تیر مژگاں اس نے جب سیدھا کیا میری طرف
دل مشبک ہو گیا سینہ دو پارہ ہو گیا
کیا لگے دل قمری و شمشاد و گل کا باغ میں
ان کو تیری قامت و رخ کا نظارا ہو گیا
عبدالمجید خواجہ شیدا