غزل
جس کی جانب تو اک نظر دیکھے
خواب تیرے وہ عمر بھر دیکھے
چین پایا کہیں نہ اس دل نے
گھوم کر ہم نے سو نگر دیکھے
داغ مانا ہیں میرے دامن پر
اپنا چہرہ بھی وہ مگر دیکھے
زہر دیتے رہے مریضوں کو
ہم نے ایسے بھی چارہ گر دیکھے
لطف چاہے جو کوئی جینے کا
اس کی محفل میں بیٹھ کر دیکھے
وہ ہی دن بھر رہا خیالوں میں
خواب تھے جس کے رات بھر دیکھے
حسن بکھرا ہے چار سو ان کا
چشم ہاتفؔ کدھر کدھر دیکھے
ہاتف عارفی فتح پوری