ہوا میں دیپ جلانے کا یقیں کرتے ہیں
یعنی اک وہم کو اس دل میں مکیں کرتے ہیں
ہم پہنتے ہیں تُجھے روز ہی زیور کی طرح
اور تمنا کو تِری اس میں نگیں کرتے ہیں
اپنی کم شکلی کا ہے زُعم کہ ہم دیکھتے ہیں
ہائے جو کام یہاں روز حسیں کرتے ہیں
تم کو پڑھتے ہیں کسی لازمی مضموں کی طرح
لوگ ایسے بھی یہاں خود کو فطیں کرتے ہیں
اِس پہ چلتا ہے ترےنام کا سِکہ صاحب
ہم بھی اس دِل پہ تُجھے تخت نشیں کرتے ہیں
میں تو اِن وقت پرستوں میں گھری ہوں زریں
جو کہ ہر جاہ ہی نگوں اپنی جبیں کرتے ہیں
زرین منور