شاخ سے ٹوٹ کے پتے جو بکھر جاتےہیں
کون جانے کہ وہ پھر أڑ کے کدھر جاتے
یہ نہیں دیکھتا وہ روز کدھر جاتےہیں
سایہ بن جاتاہوں أن کا وہ جدھر جاتے ہیں
ہم کہ بے راہ روی میں یونہی چلتے چلتے
صاف ہوجاتی ہے جب گردِ سفر جاتے ہیں
میکدے ہی میں تو شب اپنی گزر جاتی ہے
صبح کا تارا نظر آٸے تو گھر جاتے ہیں
کھیلتے کھیلتے جزبات سے میرے اکثر
وہ تو اقرارِ محبت سے مکر جاتے ہیں
اپنے کردار پہ ہم جب بھی نظر ڈالتے ہیں
آٸینہ دیکھ کے ہم خود سے ہی ڈر جاتے ہیں
اپنے اسلاف کو پاکیزہ رکھا ہےہم نے
اپنے کردار کو ہم لےکےجدھر جاتے ہیں
سامنے أن کو بٹھا کہ جو غزل لکھتا ہوں
میرے اشعار کے الفاظ نکھر جاتے ہیں
آپ تو آپ ہیں کیا آپ سے کہتے نیّر
ہم تو بس ہم ہیں جو اظہارسے ڈر جاتے ہیں
نیر صدیقی