سنہرے خوابوں کی مثل نیندوں میں پل چکا ہوں
چراغ بن کر میں ان کی آنکھوں میں جل چکا ہوں
جو چھوٹا موٹا سا زخم ہوتا تو سل بھی جاتا
مگر میں کار رفو سے آگے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نکل چکا ہوں
اک ایسی رہ پر کہ جس کی منزل کوئی نہیں تھی
میں ایک ٹھوکر پہ اپنا رستہ۔۔۔ بدل چکا ہوں
میں اس کی شوخی و خوش مزاجی کو عشق جانا
بہک گیا تھا ذرا سا۔۔۔۔۔ پر اب سنبھل چکا ہوں
تھےدھندلے دھندلے۔۔۔۔ فریب دیتے ہوئے مناظر
ہے صاف منظر اب اپنی آنکھوں کو مل چکا ہوں
تھی خوش خیالی۔۔۔۔۔۔ وجود اپنا بچا گیا میں
حقیقتاً اب اسی کے پیکر میں۔۔۔ ڈھل چکا ہوں
کہا یہ گوہر سے۔۔۔۔۔۔۔۔ جاؤ تم کو بھلا چکے ہم
یقین کرلوں۔۔ کہ ان کے دل سے نکل چکا ہوں
اقبال گوہر