تا ختمِ سفر گرمیِ رفتار مِلی ہے
سایہ نہ مِلا، دھوپ تو غم خوار مِلی ہے
کیا فخر کریں، یہ بھی ہے کچھ مِلنے میں مِلنا
سر رکھ دیا قدموں میں تو دستار مِلی ہے
دُور ایسے کہ جس طرح کنارے ہوں اُفق سے
پاس اِتنے کہ دیوار سے دیوار مِلی ہے
کیا وقت پڑا دشت کے موسم زدگاں پر
گھر جل گئے کب کے، خبر اِس بار مِلی ہے
اِک حرفِ جنوں کہہ نہ سکا، مجھ سے تو محشر
زنجیر ہی اچھی، جسے جھنکار مِلی ہے
محشر بدایونی