ادنیٰ سے جو سر جھکائے اعلیٰ وہ ہے
جو خلق سے بہرہ ور ہے دریا وہ ہے
کیا خوب دلیل ہے یہ خوبی کی دبیرؔ
سمجھے جو برا آپ کو اچھا وہ ہے
دبیر
آہوں سے عیاں برق فشانی ہو جائے
غل رعد کا نالوں کی زبانی ہو جائے
اشکوں سے جھڑی لگے وہ شہ کے غم کی
ساون کی گھٹا شرم سے پانی ہو جائے
دبیر
آفاق سے استاد یگانہ اٹھا
مضموں کے جواہر کا خزانہ اٹھا
انصاف کا نوحہ ہے یہ بالائے زمیں
سرتاج فصیحان زمانہ اٹھا
دبیر