مانا کہ نہیں وقت کی رفتار سبک گام
ہم کو نظر انداز نہ کر گردشِ ایام
زندہ ہے اگر عشق تو کیا غم دلِ خود کام
ہر صبح طرب خیز ہے رنگیں ہے ہر اک شام
دنیا سے تعلق ہے نہ عقبیٰ سے مجھ کام
اب میری نگاہیں ہیں اور اک جلوۂ گمنام
کیا بات ہے کیوں ہیں ہدف تیرِ ملامت
اتنا تو نہ تھا جذبہء اربابِ جنوں خام
زنداں تو کھلے پاؤں کی زنجیر تو ٹوٹے
ہم جشن منائیں گے سجائیں گے در و بام
جیسے کہ مرے ساتھیو آتا ہو کوئی مڑ
میں کہ عبث دیکھتا جاتا ہوں بہر گام
پایا ہے فدا رونقِ ہر بزم انہیں کو
خلوت کدہِ دل ہو کہ ہو جلوۂ گہ عام۔۔
فدا خالدی