اب دوستوں میں خوئے رفاقت نہیں رہی
کیا جان دیجئے کہ روایت نہیں رہی
مقبول ہو رہا ہے دل آزاریوں کا فن
اب رسمِ اعترافِ ندامت نہیں رہی
بیگانگی کو آنکھ کا پردہ بنا لیا
لوگوں کو آشنائی کی حاجت نہیں رہی
کرنے لگے ہیں بخل بڑے بھی دعاؤں میں
بچوں کو بھی سلام کی عادت نہیں رہی
لکھوا رہے ہیں لوگ غزل قیمتاَ یہاں
سچے سخن کی اب کوئی حرمت نہیں رہی
جب سے نہیں ہے اس میں محبت مرے لیے
مجھ کو بھی اس نگاہ سے نسبت نہیں رہی
ویران ہو گیا وہ دریچہ تو ہم کو بھی
گملوں کے گیلری کے وہ رغبت نہیں رہی
سلمان صدیقی