اپنی اپنی گردش رفتار پوری کر تو لیں
دو ستارے پھر کسی دن ایک جا ہو جائیں گے
—
اس چھیڑ میں بنتے ہیں ہشیار بھی دیوانے
لہرایا جہاں شعلہ اندھے ہوئے پروانے
—
اللہ اللہ حسن کی یہ پردہ داری دیکھیے
بھید جس نے کھولنا چاہا وہ دیوانہ ہوا
—
اول شب وہ بزم کی رونق شمع بھی تھی پروانہ بھی
رات کے آخر ہوتے ہوتے ختم تھا یہ افسانہ بھی
—
ایک دل پتھر بنے اور ایک دل بن جائے موم
آخر اتنا فرق کیوں تقسیم آب و گل میں ہے
—
بھولے بن کر حال نہ پوچھ بہتے ہیں اشک تو بہنے دو
جس سے بڑھے بے چینی دل کی ایسی تسلی رہنے دو
—
پوچھا جو ان سے چاند نکلتا ہے کس طرح
زلفوں کو رخ پہ ڈال کے جھٹکا دیا کہ یوں
—
تیرے تو ڈھنگ ہیں یہی اپنا بنا کے چھوڑ دے
وہ بھی برا ہے باؤلا تجھ کو جو پا کے چھوڑ دے
—
جو دل رکھتے ہیں سینے میں وہ کافر ہو نہیں سکتے
محبت دین ہوتی ہے وفا ایمان ہوتی ہے
—
خالی نہ عندلیب کا سوز نفس گیا
وہ لو چلی کہ رنگ گلوں کا جھلس گیا
—
آرزوؔ ختم حقیقت پہ ہوا دور مجاز
ڈالی کعبے کی بنا آڑ سے بت خانے کی
—
خزاں کا بھیس بنا کر بہار نے مارا
مجھے دورنگئ لیل و نہار نے مارا
—
خموشی میری معنی خیز تھی اے آرزوؔ کتنی
کہ جس نے جیسا چاہا ویسا افسانہ بنا ڈالا
—
دو تند ہواؤں پر بنیاد ہے طوفاں کی
یا تم نہ حسیں ہوتے یا میں نہ جواں ہوتا
—
دوست نے دل کو توڑ کے نقشِ وفا مٹا دیا
سمجھے تھے ہم جسے خلیل کعبہ اسی نے ڈھا دیا
—
مثالِ شمع اپنی آگ میں کیا آپ جل جاؤں
قصاص خامشی لے گی کہاں تک اے زباں مجھ سے
—
نام منصور کا قسمت نے اچھالا ورنہ
ہے یہاں کون سا حق گو کہ سر دار نہیں
—
کچھ تو مل جائے لبِ شیریں سے
زہر کھانے کی اجازت ہی سہی
—
کچھ کہتے کہتے اشاروں میں شرما کے کسی کا رہ جانا
وہ میرا سمجھ کر کچھ کا کچھ جو کہنا نہ تھا سب کہہ جانا
—
ہاتھ سے کس نے ساغر پٹکا موسم کی بے کیفی پر
اتنا برسا ٹوٹ کے بادل ڈوب چلا مے خانہ بھی
—
اے مرے زخمِ دل نوازِ غم کو خوشی بنائے جا
آنکھوں سے خوں بہائے جا ہونٹوں سے مسکرائے جا
—
پھیر جو پڑنا تھا قسمت میں وہ حسب معمول پڑا
خندۂ گل سے اڑا وہ شرارہ خرمن دل پر پھول پڑا
—
تقدیر پہ شاکر رہ کر بھی یہ کون کہے تدبیر نہ کر
وا باب اجابت ہو کہ نہ ہو زنجیر ہلا تاخیر نہ کر
—
آپ آرزوؔ اب خاموش رہیں کچھ اچھی بری کھل کر نہ کہیں
ہیں جتنے منہ اتنی باتیں محفل آخر محفل ہی تو ہے
آرزو لکھنوی