Us nay kheel Tamashay kay lyee rakhy hain
غزل
اس نے کچھ کھیل تماشے کے لیے رکھے ہیں
اور کچھ لوگ سہارے کے لیے رکھے ہیں
ہم نے دنیا کے حسابوں سے بچے کچھ پیسے
اپنی تدفین جنازے کے لیے رکھے ہیں
اگلے وقتوں میں اُداسی کے اگر موسم ہوں
اس نے ہم جیسے دلاسے کے لیے رکھے ہیں
ہم کو دیکھو تو سمجھ جاؤ کہانی گو نے
چند کردار دکھاوے کے لئے رکھے ہیں
آ کبھی میرے سخن آشنا کہ چند اشعار
میں نے بس تجھ کو سنانے کے لیے رکھے ہیں
یادیں، کچھ دوست تقی، اور کتابیں چند ایک
یہ اثاثے ہیں، بڑھاپے کے لیے رکھے ہیں
سید تقی حیدر تقی
Syed Taqi Haider Taqi