چیز کیا ہے دلِ ناکام تجھے کیا معلوم
عشق اور عشق کا انجام تجھے کیا معلوم
یاد تازہ ہے انہی سے مرے ارمانوں کی
مجھ کو مرغوب ہیں آلام تجھے کیا معلوم
تلخیء زیست نہیں رہتی ہے دل پر قائم
کتنا شیریں ہے ترا نام تجھے کیا معلوم
تجھ کو فرصت ہی کہاں حسن کی آرائش سے
حسرتوں کا مری ہنگام تجھے کیا معلوم
جس نے برسوں تری محفل کو سجایا ساقی
اب شکستہ ہے وہی جام تجھے کیا معلوم
جس سے واقف تھا ہر اک ذرہء خاکِ گلشن
اب وہی شادہے گم نام تجھے کیا معلوم
شاد بہٹوی