آیا تھا جس طرف سے مسافر ادھر گیا
نادان کہہ رہے ہیں فلانا گزر گیا
الزام یونہی آ گیا شبنم غریب پر
گل چشم تر ہی آتا تھا اور چشمِ تر گیا
کچھ کم نہیں ہے قوتِ دل کا یہ معجزہ
ترکش سے تیر اڑ کے بلا بال و پر گیا
نہ جانے شہریار کے دل میں ہے چور کیا
جب بھی کہا سخن کوئی سچا بپھر گیا
اے شاد تو نے شعر کہے ہیں بہت ہی خوب
تیرا سخن ہر ایک کے دل میں اتر گیا
شاد بہٹوی