چلتا ہے دور دور ہر اک میری راہ سے
جس دن سے گر گیا ہوں تمہاری نگاہ سے
واقف نہیں ہے عشق کی وہ رسم و راہ سے
دشمن کو دیکھنا نہ کبھی اس نگاہ سے
ان کے بغیر یہ مرے دن رات اے فلک
روشن کبھی نہ ہونگے ترے مہر و ماہ سے
ہو کر وہ بے نقاب نہ آئیں گے سامنے
واقف نہیں ہیں کیا مرے ذوقِ نگاہ سے
پیشِ نظر ہے منظرِ کونین جب یہیں
جاؤں کہاں پھر اٹھ کے تری جلوہ گاہ سے
آئینہ دار حسنِ تغافل ہے آپ کا
نظریں نہ پھیریے مرے حالِ تباہ سے
ثابت کریں تو عیش پہ ہو جرمِ عاشقی
تصدیق کر رہے ہیں وہ اک اک گواہ سے
عیش ٹونکی