محبتوں کی یہ کیسی مَیں رہگزار میں ہوں
نہ آئیگا وہ مگر پھر بھی انتظار میں ہوں
وہ فخر حسن ہے مجھ کو بھی عشق پر ہے غرور
وہ لاکھوں میں ہے تو میں بھی کچھ اک ہزار میں ہوں
چھڑانا چاہو جو دامن چھڑا نہ پاؤگے
خموشیوں میں کہیں ہوں کہیں پکار میں ہوں
بکھر چکی ہوں بہت آرزو مگر پھر بھی
ہر ایک آئینہ خانے میں ہر سنگھار میں ہوں
اسیر زلف کیا ہے کسی حسیں نے کہیں
کسی کے خانۂ دل کے حسیں مزار میں ہوں
رئیسہ خمار آرزو