مرے وجود کو کاٹا کسی نگینے سے
ہوا نے باندھ کے رکھا مجھے سفینے سے
مرے خلوص کی دنیا بکھیرتا کیسے
چلا رہا تھا نظام وفا قرینے سے
یہاں پہ کون سنوارے گا ماہ وسال مرے
نکل گیا ہوں کسی سال کے مہینے سے
میں خاک پا ہوں مجھے لوٹنا ہے دنیا سے
چلا ہوں کرب و بلا شام کو مدینے سے
مرے وجود کو تھکنے کبھی نہیں دیتی
ترے خیال کی خوشبو مرے پسینے سے
یہ آدمی تو خوشامد پسند ہے اتنا
یہاں پہ پوچھتا کوئی نہیں کمینے سے
لٹا کے عشق کی دولت رضا فقیروں میں
اٹھا لیا ہے میں نے ہاتھ اب خزینے سے
حسن رضا