آنکھوں میں فقط خواب ہیں تعبیر نہیں ہے
لگتا ہے کسی خواب کی تعمیر نہیں ہے
اک عکس مسلسل مری تنہائی کے پیچھے
رہتا ہے مگر پاؤں میں زنجیر نہیں ہے
میدان محبت میں مقابل ہے زمانہ
لڑنے کے لیے ہاتھ میں شمشیر نہیں ہے
دیوار محبت پہ کہیں عکس ہے ترا
لٹکی ہوئی دیوار پہ تصویر نہیں ہے
افسوس کہ قرطاس پہ لکھتا تری باتیں
لفظوں میں مگر درد کی تاثیر نہیں ہے
سب عشقِ کے مارے ہیں یہاں کارسفر میں
اس عالمِ حیرت میں وفا گیر نہیں ہے
بنتے ہیں یہاں میر بھی غالب بھی بہت لوگ
اس شہر میںں ایسا تو کوئی میر نہیں ہے
کہتے ہیں محبت میں رضا کچھ نہیں رکھا
لکھی ہوئی ایسی کوئی تحریر نہیں ہے
حسن رضا