بس یہی حد ادب ہے آقا
پاوءں چھونے کی طلب ہے آقا
پھر وہی ماہ ربیع الاول
پھر وہی جشن طرب ہے آقا
کوئی خواہش بھی مدینے کے سوا
پہلے تھی اور نہ اب ہے آقا
آپ ہی رحمت عالم ہیں حضور
آپ ہی کا یہ لقب ہے آقا
یہ جو دوری ہے مدینے سے، یہی
وحشت دل کا سبب ہے آقا
آپ کی سمت بڑھے جاتا ہے
جو مرا دست طلب ہے آقا
جاگتی ہیں مری آنکھیں ایسے
جیسے دیدار کی شب ہے آقا
آپ راضی ہیں اگر مجھ سے تو پھر
مجھ سے راضی مرا رب ہے آقا
مجھ کو صحرائے عرب کا پانی
شربت بنت عنب ہے آقا
آپ سے ہم کو ملانے والا
آپ کا بحر عرب ہے آقا
ہے مدینہ ہی مری بزم خیال
اور یہی بزم ادب ہے آقا
یاد طیبہ سے مری آنکھوں میں
رونق گریہء شب ہے آقا
رونق حیات