چھوڑ آئے ہیں جسے ہم وہ جہاں کیسا ہے
جس میں اک عمر گزاری وہ مکاں کیسا ہے
دل سے پامال محبت کو مٹا کر اک دن
پھر سے اک شخص جو ہو جائے جواں کیسا ہے
نہ کسی وصل کی لذت نہ کسی ہجر کا روگ
دل سے اُٹھتا ہے جو اکثر وہ دھواں کیسا ہے
ناخداؤں کے ہے قبضے میں خدائی جس کی
عرش گرتا نہیں جس پر وہ جہاں کیسا ہے
خود نہ احوال بتاتے تو بھلا کیا کرتے
اُس نے پوچھا ہی نہیں کون کہاں کیسا ہے
بات جو دل میں اُتر جائے وہی بات اچھی
اس سے کیا لینا کہ اندازِ بیاں کیسا ہے
ہم بھی عابد تمہیں اک روز دکھائی دیں گے
یہ نہ بتلاؤ ہمیں اگلا جہاں کیسا ہے
عابد رشید