ہم کیوں اُن کو شعر سنانے لگتے ہیں
شعر کو جن تک یار زمانے لگتے ہیں
جن قصوں میں ہم سب کل تک زندہ تھے
اب تو وہ قصے افسانے لگتے ہیں
وقت کے ہاتھوں پھر سے سیکھنا پڑتا ہے
جب ہم بچّوں سے شرمانے لگتے ہیں
اپنی بات مکمل ہو تو کیسے ہو
سب اپنی اپنی بتلانے لگتے ہیں
ہم کو سننا پڑتا ہے دیوان اُنکا
جِن کو ہم اک شعر سنانے لگتے ہیں
عشق کریں اور وہ بھی سادہ عشق کریں
ہم بھی کیا ایسے دیوانے لگتے ہیں
پیڑوں پر پردیس میں بھی پتّے ہی تھے
عابد دور کے ڈھول سہانے لگتے ہیں
عابد رشید