ہوائیں اس گلی سے آ رہی ہیں
جفائیں اس گلی سے آ رہی ہیں
کوئی تو سانحہ گزرا ہے ایسا
کراہیں اس گلی سے آ رہی ہیں
ہمیں معلوم ہے انجام اپنا
بلائیں اس گلی سے آ رہی ہیں
یقینا دل زمیں سیراب ہوگی
گھٹائیں اس گلی سے آ رہی ہیں
کسی بھی طرح سے زندہ رہوں میں
دعائیں اس گلی سے آ رہی ہیں
سنبھالوں کس طرح اس دل کو اپنے
ادائیں اس گلی سے آ رہی ہیں
بچاؤں کس طرح سے جسم و جاں کو
شعائیں اس گلی سے آ رہی ہیں
بڑی الجھن میں ہوں یہ کس طرح کی
صدائیں اس گلی سے آ رہی ہیں
محمود صدیقی