مجھے دریافت کرنا چاہتے ہو اور ڈرتے ہو
سنہری بات کرنا چاہتے ہو اور ڈرتے ہو
یہی دو بول کافی ہیں محبت سے بھرے ہوں تو
انھیں خیرات کرنا چاہتے ہو اور ڈرتے ہو
دیا بُجھتا نہیں ہے آرزو کے ساتھ جلتا ہے
فروزاں ذات کرنا چاہتے ہو اور ڈرتے ہو
قفس شوریدہ سر لوگوں کی پہلی راجدھانی ہے
جنوں کی بات کرنا چاہتے ہو اور ڈرتے ہو
یہی اک جنس ہے کمیاب انسانوں کی منڈی میں
سخن سوغات کرنا چاہتے ہو اور ڈرتے ہو
چھلکتا ہے نگاہوں سے کوئی احساسِ محرومی
عیاں جذبات کرنا چاہتے ہو اور ڈرتے ہو
اکیلا پن تمھارا شازیہ اکبر کو بتلاے
بسر اوقات کرنا چاہتے ہو اور ڈرتے ہو
شازیہ اکبر