زندگی درد سے ملانے میں
کوئی کردار ہے فسانے میں
آندھیاں بال کھولے پھرتی ہیں
وہ بھی تعمیر کے زمانے میں
پھر سمندر سکھا دیے ہم نے
دشت سے دشت کو ملانے میں
اور محبت کی سانس گُھٹنے لگی
راز کھلنے لگا چُھپانے میں
دلربا تو کُجا خدا تک بھی
لوگ ماہر کئی بنانے میں
خود بھی تقسیم ہو گئی ہوگی
اس قدر رابطے بنانے میں
ہندوانہ مزاج ہے الفت
دیر کرتی نہیں جلانے میں
زندگی کم ہے شازیہ اکبر
دیر کر دی ہے تم نے آنے میں
شازیہ اکبر