فَصیلِ شَہر سے باہر بُلا کے مارا گیا
سَبھی کے سامنے عِبرت بَنا کے مارا گیا
مِرے خلاف گواہی تھی میرے بھائی کی
اِسی لیے تو عَدالت میں لا کے مارا گیا
یہ حُکم تھا کہ مجھےِ آگ پر ہی چَلنا ہے
میں بے گناہ تھا پھِر بھی جَلا کے مارا گیا
کِسی کو حوصلہ ہی کَب تھا بات سُننے کا
مِری زبان پہ قَدغن لَگا کے مارا گیا
نظر مِلاتے بھی کیسے وہ میرے یار جو تھے
تھے شَرمسار سو نَظریں چُرا کے مارا گیا
نَقاب ڈال کے لایا گیا میں مَقتل میں
پھر ایک ایک کوچِہرہ دکھا کے مارا گیا
مجھے نہ دیکھ سکا کوئی سَچ کے رَستے پہ
حَسَد کے دَشت میں سُولی چَڑھا کے مارا گیا
اَگرچہ قَتل کی سازش دَرونِ شہر ہوئی
میں احتیاط سے پردیس جا کے مارا گیا
مِرے حریف مِرے اپنے لوگ تھے دانش
یہ راز قَتل سے پَہلے بتا کے مارا گیا
دانش عزیز