جھوم کے ساغر کون اٹھائے کس کو پڑی میخانے کی
گلشن گلشن یوں پھرتی ہے چاک گریباں پھول کی خوشبو
ساقی کو بھی ہوش نہیں ہے قسمت ہے پیمانے کی
جیسے صبا نے پھیلا دی ہو بات کسی دیوانے کی
دیوانے پن کی گھاٹی میں عقل کا سورج ڈوب چلا
شہر تخیل پر چھائی ہے شام کسی ویرانے کی
سارے سہارے چھوٹ چلے ہیں صبح کا تارا ڈوب چلا
پھر بھی تمنا سوچ رہی ہے بات کسی کے آنے کی
زندہ رہ کر ہی پہنچے گا پیار کا نغمہ گلیوں گلیوں
بات ادھوری رہ جاتی ہے جل بھن کر پروانے کی
بے دردوں کے دور میں ہے جنبشؔ خون تمنا ہونے دو
کوئی نہ کوئی آنسو سرخی دے دے گا افسانے کی
جنبش خیرآبادی