درد جتنے ہیں لا دوا ٹھہرے
ہم برے آپ پارسا ٹھہرے
کیسے جھٹلائیں گے وفا میری
لاکھ یہ حسن کی ادا ٹھہرے
عشق کیوں حسن کا سوالی ہے
کچھ تو اس کا بھی فیصلہ ٹھہرے
حسن مغرور کیوں ازل سے ہے
اس پہ بھی تو کوئی سزا ٹھہرے
تم کو پانا ہمارے بس میں تھا
پھر بھی ہم خود ہی نارسا ٹھہرے
ہڑ بڑا کر ستم سے دنیا کے
آج پہلو میں میرے آ ٹھہرے
خاور کمال صدیقی