کس قدر اختصار سے بولا
جب بھی بولا وہ پیار سے بولا
اس کی آنکھوں سے مے چھلکتی تھی
وہ بہک کر خمار سے بولا
اس کا انداز دلبرانہ تھا
تب ہی تو انکسار سے بولا
کچھ تو مجبوریاں رہی ہونگیں
ڈر کے جو انتشار سے بولا
کون سمجھے گا اس کو میرے سوا
اس نے اشکوں کی دھار سے بولا
وقتِ رخصت وہ کہہ گیا خاور
تو نے کچھ بھی نہ یار سے بولا ؟
خاور کمال صدیقی