اس شان کرم کا کیا کہنا در پہ جو سوالی آتے ہیں
اک تری کریمی کا صدقہ وہ من کی مرادیں پاتے ہیں
خالی نہ رہی رحمت سے تری دکھ درد کے ماروں کی جھولی
کیا تیرا کرم ہے در پہ تیری بھر دی ہے ہزاروں کی جھولی
دن رات ہے منگتوں کا پھیرا کیا خوب سکھی ہے در تیرا
ملتی ہے کرم کی بھیک انہیں دامن جو یہاں پھیلاتے ہیں
اس در کی سخاوت کیا کہیے خالی نہ گیا منگتا کوئی
محتاج یہاں جو آتے ہیں وہ جھولیاں بھر کے جاتے ہیں
پرنم الہ آبادی