تنویر لامکاں سے تکمیل انس و جاں ہے
یہ کائناتِ عالم اک راز کن فکاں ہے
وہ آگئی قیامت اب وقت ہی کہاں ہے
کیوں چھیڑتے ہونا حق پُر درد داستاں ہے
روزِ حسابِ آخر اتنا بڑا کہاں ہے
جتنی طویل یارب یہ غم کی داستاں ہے
دو دن کی زندگی کو کہتا ہے کون جینا
راہِ وفا میں مٹنا یہ عمرِ جاوداں ہے
گلشن میں چند تنکے بکھرے ہوئے ملیں گے
اے ہم قفس سمجھنا وہ میرا آشیاں ہے
ہر پھول کی روش میں ہر خار کی خلش میں
نقش بہار رنگیں دیباچۂ خزاں ہے
ہے جس کے سنگِ در پر کونین سر بسجدہ
یہ کس کا آستاں ہےیہ کس کا آستاں ہے
قاتلؔ غذائے دل ہی اس تیر کی خلش ہے
یہ طرفہ ماجرا ہے مہمان میزباں ہے
قاتل اجمیری