دل گھر میں حسینوں کا گو آنا رہا اکثر
کاشانہ ٗء دل پھر بھی ویرانہ رہا اکثر
تارا میں رہا بن کے ساقی کی نگاہوں کا
پھر میرا ہی خالی کیوں پیمانہ رہا اکثر
ہر موجِ ِسمندر کےلب پہ یہ کہانی ہے
جو سیپ سے موتی کا یارانہ رہا اکثر
نشہ ہے یہ آنکھوں کا یا مستی ہے لفظوں کی
اندازِ سخن میرا رندانہ رہا اکثر
یہ عشق حقیقی تھا یا عشقِ مجازی تھا
فرہاد جو شیریں کا دیوانہ رہا اکثر
وہ ہجر مسلسل کی لکھوا کے سزا لایا
اس شوخ کا جو بن کے پروانہ رہا اکثر
ٹھکرائے ہوؤں کا دل ، دیوانہ رہا اکثر
مفتی کا جداگانہ افسانہ رہااکثر
ابنِ مفتی سید ایاز مفتی