پابندیوں سے اپنی نکلتے وہ پا نہ تھے
سب راستے کھلے تھے مگر ہم پہ وا نہ تھے
یہ اور بات شوق سے ہم کو سنا گیا
پھر بھی وہی سنایا سنا اک فسانہ تھے
اک آگ سائبان تھا سر پر تنا ہوا
پل پل زمیں سرکتی تھی اور ہم روانہ تھے
دریا میں رہ کے کوئی نہ بھیگے تو کس طرح
ہم بے نیاز تیری طرح اے خدا نہ تھے
ہرگز گلہ نہیں ہے کہ تو مہرباں نہ تھا
کب ہم بھی اپنے آپ سے بے حد خفا نہ تھے
کیوں صبر آشنا نہ ہوا نامراد دل
تیرے کرم کے ہاتھ تو یوں بے عطا نہ تھے
وہ اور ہم سے پوچھے کہ بلقیسؔ کچھ تو کہہ
کم بخت ہم کہ ہوش ہی اپنے بجا نہ تھے
بلقیس ظفیر الحسن