وقت گردش میں بہ انداز دگر ہے کہ جو تھا
تن میں جاں ہے کہ جو تھی دوش پہ سر ہے کہ جو تھا
قافلے لٹتے گئے بجھتے گئے دل لیکن
ایک ہنگامہ سر راہ گزر ہے کہ جو تھا
تیشۂ فکر وہی نشتر احساس وہی
زخم سر ہے کہ جو تھا زخم جگر ہے کہ جو تھا
ساتھ قدموں کے لگا چلتا ہے اپنا سایہ
وہی ہم ہیں وہی صحرائے سفر ہے کہ جو تھا
آدمی اپنے خیالوں کا سلگتا پیکر
خود نگر ہے کہ جو تھا خاک بسر ہے کہ جو تھا
آنکھ والوں نے تو ہر موڑ پہ بدلے انداز
ایک اپنا وہی انداز نظر ہے کہ جو تھا
آگ جنگل کی بجھائے یہ پڑی ہے کس کو
وسعت جاں میں وہی رقص شرر ہے کہ جو تھا
عقل یہ تیری ہی پونجی ہے سمجھ یا نہ سمجھ
دل اک اجڑا ہوا جلتا ہوا گھر ہے کہ جو تھا
پوچھنے آئے ہیں بچھڑے ہوئے لمحے حرمتؔ
کیا وہی سلسلۂ شام و سحر ہے کہ جو تھا
حرمت الاکرام